Start of Main Content

کرسٹوفر براؤننگ

مؤرخ کرسٹوفر براؤننگ نے اپنی بے شمار تحریروں کے ذریعے یہ واضع کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہالوکاسٹ کے دوران عام جرمن شہری کیونکر قاتلوں کا روپ دھار لیا تھا۔ آئیے خود براؤننگ صاحب سے سنتے ہیں کہ اُنہوں نے ایسا ظلم کرنے والوں کی تاریخ کے بارے میں چھان بین کیوں کی۔

Transcript

کرسٹوفر براؤننگ: کوئی حکومت لوگوں کے ایک گروہ کو ہلاک کرنے کے لئے ایک سرکاری پالیسی کے طور پر کیسے فیصلہ کر لیتی ہے؟ لوگ ۔۔۔ عام لوگ کیسے قتلِ عام کا شکار ہوتے ہیں؟ نازی حکومت کے نظام میں ہالوکاسٹ محض چند مخبوط الحواس لوگوں کی طرف سے اذیت پسندی کا ایک چونکا دینے والا رویہ ہی نہیں تھا۔ یہ ایک افسر شاہی اور انتظامی عمل تھا۔ اِس عمل میں جرمن معاشرے اور جرمن تنظیموں کی تمام جہتیں شامل ہیں۔ اگر ہم نے ہالوکاسٹ کے بارے میں نہیں جانا توہم نازیوں کو نہیں سمجھ پائے، ہم دوسری جنگِ عظیم کو نہیں سمجھ سکے اور ہم بیسویں صدی کی یورپی تاریخ کو بھی نہیں سمجھ سکے۔

ڈینیل گرین: تاریخ دان کرسٹوفر براؤننگ کا خیال ہے کہ ایک معلم ہونے کے ناطے یہ اُن کا فرض ہے کہ وہ مشکل سوال سامنے لائین۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کا مقصد خود اپنے آپ کو پہچاننا اور یہ جاننا ہے کہ انسان ہونے کی حیثیت سے ہم کیا کرنے یعنی "عام لوگ" میں Ordinary Menکی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اپنی کتاب اُنہوں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ عام جرمن لوگوں نے ہالوکاسٹ کے دوران وسیع پیمانے پر قتلِ عام کا حصہ بننے کا انتخاب کیونکر کیا۔ وہ ہم پر زور دیتے ہیں کہ ہم ظلم کا ارتکاب کرنے والے نازیوں کے اوڑھے ہوئے انسانی نقاب کا بغور جائزہ لیں۔

میں آپ کو"سام دشمنی کے خلاف آوازیں" یعنی "Voices on Antisemitism" میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کی مُفت پاڈ کاسٹ سیریز ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہم ہر دوسرے ہفتے آج کی دنیا پر مختلف حوالوں سے سام دشمنی اور نفرت کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ایک مہمان کو مدعو کرتے ہیں۔ آج کے مہمان ہیں مصنفہ اور مؤرخ کرسٹوفر براؤننگ۔

کرسٹوفر براؤننگ: زیادہ تر یورپی تایخ کے دوران اور بیشتر یورپی لوگوں کے لئے سام دشمنی دنیا میں اُن کی صورتِ حال کے حوالے سے محض ایک چھوٹا سا واقعہ ہے۔ کیونکہ یہ الفاظ بہت عام ہیں اور جب ہٹلر یہودیوں کے خلاف مظالم شروع کر تا تھا تو نہ تو خبردار کرنے والے کوئی سگنل سامنے آتے تھے اور نہ ہی خطرے کی کوئی گھنٹیاں بجنی شروع ہوتی تھیں۔ یورپی سام دشمنی یقیناً ایک ھزار برس سے زیادہ عرصے سے موجود رہی ہے۔ یہود دشمنی کے بہت سے الزامات جن کا تذکرہ آپ قرونِ وسطیٰ کے ادب میں پڑھتے ہیں وہ ایک ھزار برس بعد بھی موجود ہیں۔ اور پھر جب نازیوں اُن کے اس عمل میں شامل ہو گئے تو وہ ایسی باتیں کہ رہے تھے جن کی بازگشت لمبے عرصے سے سنی جا رہی تھی اور جو یورپی معاشرے کا حصہ رہی تھیں۔ اُن کا ایک ایسا پیکیج تیار کیا گیا تھا جس کے حوالے سے مستقبل میں بننے والی حکمتِ عملیوں کے خدو خال بالکل نئے اور بنیاد پرست تھے۔

نازیوں نے خود کو ایک ایسے تاریخی کارنامے میں مصروف دیکھا جس کے ذریعے وہ دنیا کے آبادیاتی نقشے کو بدلنا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے دنیا کے نظام کو جس انداز میں سمجھا اُس کی بنیاد ہی نسلی امتیاز تھا۔ اِس نظام کے تحت بنیادی طور پر تاریخ مختلف نسلوں کے درمیان ایک جدوجہد تھی اور تاریخ کا نتیجہ اِس بات پر منحصر تھا کہ کون سی نسل فتح مند ہوئی اور کس نسل کے حصے میں شکست آئی۔ ہٹلر کی سوچ کا مرکزی نقطہ یہی تھا اور وہ اس حوالے سے بخوبی جانتا تھا کہ اُس کا تاریخ میں کردار کیا ہو گا۔

میرے خیال میں ہمیں ہالوکاسٹ کے حوالے سے اِس تصور سے بچنا ہو گا کہ ہالوکاسٹ ایک قدرتی تباہی تھی۔ ہالوکاست کوئی سونامی نہیں تھا۔ یہ کوئی زلزلہ بھی نہیں تھا۔ ہالوکاسٹ خود انسان کا تخلیق کیا ہوا ایک واقعہ تھا۔ لوگوں نے خود فیصلے کئے اور پھر اُن پر عمل کیا۔ اگر ہم ہالوکاسٹ کو ایک مافوق الفطرت واقعہ قرار دیں تو ہم واضح طور پر ہالوکاسٹ کو تاریخ سے حذف کر رہے ہیں اور اسے ایک پراسرار یا روحانی واقعے کا روپ دے رہے ہیں۔ میرے خیال میں ہمیں اس واقعے کے انسانی حوالے کی جہت کو محفوظ کرنا ہو گا اور ایسا کرنے کے لئے ہمیں یہ مظالم ڈھانے والے مجرموں پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ اِن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے یہ حکمتِ عملی مرتب کی اور فیصلے کئے۔ اِن کے علاوہ وہ بھی جنہوں نے اِس پر عمل درآمد کیا اور جو ایک کے بعد ایک قتل در قتل کرتے رہے اور قتل ہونے والوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلسل یہ جرم کرتے رہے۔ اور پھر ایسے ظالموں کو انسان قرر دینا۔ اِس بات سے قطعاً صرفِ نظر نہ کرنا کہ اِس ساری کارروائی کا مقصد اِس ساری صورتِ حال کے خوف کو اجاگر کرنا ہے۔ کیونکہ اگر ایک مرتبہ آپ اِن مظالم ڈھانے والوں کو انسان قرار دینے لگیں تو پھر آپ کو اس غیر اطمنان بخش آگہی کا سامنا کر نا پڑے گا کہ : کیا وہ بنیادی طور پر مجھ سے مختلف ہیں؟ اور اگر ایسا ہے تو ایسی صورتِ حال میں میرا طرزِ عمل کیا ہوتا؟