Start of Main Content

لاڈن بورومانڈ

تہران میں 2006 میں ہالوکاسٹ سے انکار کرنے والوں کے بین الاقوامی اجلاس کے بعد جلاوطن ایرانی لاڈن بورومانڈ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اِس حقیقت پر تاسف کا اظہار کیا کہ ہالوکاسٹ سے انکار ایران کے موجودہ لیڈروں کیلئے پراپیگنڈے کا آلہ بن چکا ہے۔

Transcript

لاڈن بورومانڈ پی۔ایچ۔ ڈی۔ ریسرچ ڈائریکٹر۔ ایبڈورامان بورومانڈ فاؤنڈیشن

تہران میں 2006 میں ہالوکاسٹ سے انکار کرنے والوں کے بین الاقوامی اجلاس کے بعد جلاوطن ایرانی لاڈن بورومانڈ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اِس حقیقت پر تاسف کا اظہار کیا کہ ہالوکاسٹ سے انکار ایران کے موجودہ لیڈروں کیلئے پراپیگنڈے کا آلہ بن چکا ہے۔

لاڈن بورومانڈ: مطلق العنان حکومتوں کو انتہائی تباہ کن بنانے والی کارروائی یہ ہے کہ وہ آپ کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نہیں ہیں یا پھر آپ کچھ اور ہیں۔ یا پھر یہ کہ یہ واقعہ تو ظہور پزیر ہوا ہی نہیں۔ یہ طاقت۔ یہ صرف خدا کی طاقت ہے۔ اگر کوئی حکومت یا کچھ لوگ یہ سنجھتے ہیں کہ وہ خدا ہیں یا پھر وہ آپ کو جانور یا انسان بنا دینے کا حق رکھ سکتے ہیں۔ وہ آپ کو بنا سکتے ہیں یا ہلاک کر سکتے ہیں اوریہ بات ناقابلِ برداشت ہے۔ اِس لئے جو کچھ آپ کر سکتے ہیں ۔۔۔ جو انتہائی تخریبی عمل ہےآپ کر سکتے ہیں وہ ہے سچ کہنا۔ یہ بات تباہ کن ہے کیونکہ ہر بارجب آپ صداقت کے ساتھ سامنا کرتے ہیں تو آپ اُن کو اِس بات کا حق نہیں دیتے کہ وہ ایک ایسی مصنوعی دنیا تشکیل دے سکیں جہاں وہ جو چاہیں کر سکیں۔

ڈینیل گرین: لاڈن بورومانڈ اور اُن کی بہن رویا ایرانی جلاوطن ہیں جنہوں نے "اُمید" کے نام سے ایک یادگار ویب سائیٹ بنائی ہے جو ایرانی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ اِن میں سے ایک خلاف ورزی 1991 میں اُن کے والد کا قتل تھا۔ ہالوکاسٹ سے انکار کرنے والوں کے بین الاقوامی اجلاس کا اہتمام ایران کی وزارتِ خارجہ نے دسمبر 2006 میں کیا تھا۔ لاڈن صاحبہ نے اِس اجلاس کی مذمت میں ایک بیان جاری کیا۔ اِس بیان پر تقریباً 100 ایرانی جلاوطن افراد نے دستخط کئے اور اسے "دا نیو یارک ریویو آف بُکس" میں شائع کیا گیا۔ اِس بیان میں اِس حقیقت پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ ہالوکاسٹ سے انکار ایرانی لیڈروں کے لئے پراپیگنڈے کا آلہ بن کر رہ گیا ہے۔

میں آپ کو"سام دشمنی کے خلاف آوازیں" یعنی "Voices on Antisemitism" میں خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ یونائیٹڈ اسٹیٹس ہالوکاسٹ میموریل میوزیم کی مُفت پاڈ کاسٹ سیریز کا ایک حصہ ہے۔ میں ڈینیل گرین ہوں۔ ہم ہر دوسرے ہفتے آج کی دنیا پر مختلف حوالوں سے سام دشمنی اور نفرت کے مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کیلئے ایک مہمان کو مدعو کرتے ہیں۔ آج کے مہمان انسانی حقوق کی وکالت کرنے والی لاڈنن بورو مانڈ ہیں۔

لاڈن بورومانڈ: ہر چیز کا آغاز فروری مارچ 1979 میں انقلاب کے دوران ہوا جب میں ایک طالب علم تھی اور بہت جوش و خروش سے انقلاب کو دیکھنے کے لئے ایران گئی تھی۔ وہاں پہلی بلا جواز سزائے موت کے واقعات سے مجھے شدید دھچکہ لگا۔ ایک جمہوری ایران کے لئے ہمارے تمام خواب چکنا چور ہو گئے اور میں نے اِس کے لئے خود کو ذمہ دار محسوس کیا۔ ایک شہری اور ایک انسان ہو نے کے ناطے قصور وار ہونے کا احساس میرے ساتھ رہا۔ پھر جب میں فرانس واپس آئی جہاں میں تعلیم حاصل کر رہی تھی تو میری بہن رویا اور میں نے انسانی حقوق کے لئے سرگرم ہونے اور فعال ہونے کا آغاز کر دیا کیونکہ ہم نے محسوس کیا کہ ہر گروپ اور ہر سیاسی پارٹی خود اپنے ہی متاثرہ افراد کے حوالے سے بات کرتی ہے اور یوں کسی حد تک دوسروں کے قتل کا جواز بھی دیتی ہے۔ ہم ہمدردی کے فقدان اور عالمگیری سطح پر انسانی حقوق کے احترام کے فقدان پر واقعتاً مشتعل ہوئے۔

پھر ہم نے کیا کیا۔ ہم نے اُس وقت نشانہ بننے والوں کی فہرستیں تیار کیں جن میں ہر وہ شخص شامل تھا جو اُن کا حدف بنا تھا چاہے وہ یہودی ہو، بہائی ہو، سماجی کارکن ہو، اشتراکی ہو، سابق حکومت کا کوئی جنرل ہو یا پھر ہم جنس پرست ہونے کی وجہ سے مارا گیا ہو۔ اِن فہرستوں میں یہ سبھی شامل تھے اور یہ پہلا موقع تھا جب میں نے نشانہ بننے والوں کی تصویریں دیکھیں۔ سابق جنرل جنہیں پھانسی دے دی گئی تھی۔ وہ اِن لاشوں کی تصاویر اخبار میں چھپوا دیتے تھے۔ یہ تما م لاشوں کی تصاویر تھیں۔ یہ بے حد ہولناک تھا اور یہ تمام صورتِ حال ایک وسیع تباہی کا منظر پیش کرتی تھی۔ یہ احساسِ ندامت ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا تھا کیونکہ ہم سوچتے تھے کہ خدا کے لئے! تمام دنیا اور اُن لوگوں کی تعداد جو یہ سب کچھ نہیں ہونے دینا چاہتے تھے، اُں لوگوں سے کہیں زیادہ تھی جو یہ سب کچھ کر رہے تھے۔ یہ نمبروں کا حساب کتاب ہے اور یہ سب اِس طرح کیوں ہو رہا ہے۔ میری ہمیشہ سوچ کچھ ایسی ہی تھی کہ اِس لمحے وہ تنہا ہیں اور اپنی موت کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ایسے میں ہم کہاں ہیں۔ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اُن کے نام اکٹھے کرنا ہی ایک ایسا کام تھا جو ہم کر سکتے تھے اور ہم وہی کچھ کر رہے تھے۔

"اُمید" ایک ویب سائیٹ ہے جواسلامی جمہوریہ ایران کا نشانہ بننے والوں سے منسوب ہے۔ اُن کوگوں سے جو کسی نہ کسی طور ہلاک کر دئے گئے۔ عدالتی فیصلے سے یا پھر ایرانی حکومت کے دہشت گردانہ حملوں میں۔ "اُمید" کے معنی ہیں hope ۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ اُن سب لوگوں کے لئے ایک حقیقی یادگار بنائیں۔ یہ ایک تحقیقی مرکز ہے لوگوں کے نام ۔۔۔ اُن کی موت یا قتل کے حالات معلوم کرنے اور اِس صورتِ حال کا شکار ہونے والے ہر شخص کی کہانی بیان کرنے کے لئے وقف ہے۔

اب ہم خوف کے ساتھ زندہ رہنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ میرا مطلب ہے ہم ہمیشہ ہی خوفزدہ رہے ہیں اور ہم درست بھی تھے کیونکہ بالآخر اُنہوں نے ہمارے والد کو ہلاک کر دیا۔ بیشتر ایرانی خوفزدہ ہیں۔ پھر جیسے جیسے حالات بگڑتے چلے گئے اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے ہم نے اپنے والد کوبھی کھو دیا۔ تو پھر میں سو ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ بھیانک خواب بار بار لوٹ آتے۔ لہذا اب جو میں کر رہی ہوں وہ بے حد خود غرضانہ بات ہے کیونکہ جب سے ہم نے "آمید" قائم کی ہے میں آرام سے سو رہی ہوں اور اب مجھے بھیانک خواب بھی نہیں ستاتے ہیں۔

میں یہ ضرور کہوں گی کہ اپنے والد کی موت کے بعد میرے سامنے ایک بڑا سوال یہ تھا کہ ہالوکاسٹ کے بعد کے حالات میں یہودیوں نے اپنی بقا کیسے برقرار رکھی؟ وہ کیسے زندہ رہے کیونکہ اِن تمام حالات کے بعد زندہ رہنا بے حد دشوار تھا۔ ہر دن ایک نیا چیلنج تھا۔ جاگنا چیلنج تھا۔ کام کرنا چیلنج تھا۔ اپنے دوستوں کا سامنا کرنا چیلنج تھا۔ زندہ رہنے میں بے حد شرمساری اور ندامت تھی۔ میں نے سوچا کہ آخر یہودیوں نے کیسے یہ ممکن کر دکھایا۔

ہالوکاسٹ بیان کے لئے ایک جواز میرے خیال میں یہی رہا کہ ہم لاکھوں لوگوں کے دستخط حاصل کریں۔ لیکن لوگ خوفزدہ ہیں اور ہم خود بھی ڈرے ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ کام کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمیشہ ایک ہی طرح کی صورتِ حال ہے۔ اگرآپ ایسا نہیں کرتے تو آپ بے حد شرمندہ ہوتے ہیں کہ آپ خود ہی زندہ رہتے ہوئے مطمئن اور پر سکون نہیں ہیں یا پھر صداقت اور سچائی کے بغیر زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں بنتا۔ آپ خود ہی بتائیں کہ اگر آپ خود اپنی ہی زندگی کے ساتھ خوش نہیں ہیں تو پھر اِس زندگی کی قدرو قیمت ہی کیا ہے؟

میرے خیال میں ہالوکاسٹ سے انکار کوئی معصومانہ معاملہ نہیں۔ یہ جدید نازی کلچر کا حصہ ہے۔ ایک لحاظ سے یہ ایک نظریاتی بیان ہے جو صرف ہالوکاسٹ کے بارے میں ہی نہیں بلکہ اس حکومت کی نوعیت سے متعلق بھی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ کسی دانشور ہا کسی شخص نے کچھ بھی نہیں کہا۔ ہم نے سوچا کہ شاید ہمیں ہی کچھ کرنا چاہئیے۔ میں گھر آئی اور میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں نے پہلے کبھی ایسی کوئی چیز نہیں لکھی ہے لیکن پھر میں نے کانگریس میں پیش ہونے والی تمام قراردادوں کے بارے میں غور کیا اور سوچا کہ ہمیں یہ کرنا ہی چاہئیے۔ اِس لئے میں نے اسے ایک قرارداد کے طور پر تحریر کیا۔

ہم دستخط کرنے والے ایرانی اسرائیل عرب تنازعے سے متعلق مختلف نظریات رکھنے کے باوجود اس بات پر تاسف کا اظہار کرتے ہیں کہ نازیوں نے نہایت سرد مہری کے ساتھ "آخری حل" کے لئے منصوبہ بندی کی اور اس کے بعد دوسری جنگ کے دوران رونما ہونے والا یہودیوں اور دوسری اقلیتوں کا قتلِ عام ناقابلِ تردید تاریخی حقائق ہیں۔

جب بھی کہیں کوئی ناانصافی ہوتی ہے تو شرمندگی اور ندامت کا ایک احساس ہوتا ہے۔ آپ وہاں موجود ہوتے ہیں اورکچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں اور میرے خیال میں ایرانیوں کو اس مسئلے سے صحیح طور پر عہدہ برا ہونے میں جو مشکل پیش آ رہی ہے اُس کی ایک وجہ ندامت کا یہ احساس بھی ہے کہ نہیں جانتے کہ صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے۔ اس لئے آسان یہی ہے کہ اسے بھول جائیں اور یوں زندگی جاری و ساری رہتی ہے۔ لیکن اگر ماضی میں سرزد ہونے والے جرائم کے حوالے سے ہمدردی نہ ہو پھر نئے جرم سامنے آئیں گے اور یہی وجہ ہے کہ میں سوچتی ہوں کہ اِس کا سامنا کرنا ہی اچھی اور احسن بات ہے۔