Start of Main Content

نویلا راشد

نویلہ راشد کا کہنا ہے کہ یونائيٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں نوجوانوں کے لئے منعقد ایک پروگرام میں شرکت کے بعد وہ بہتر مسلمان ہوگئی ہيں۔ نویلہ راشد سمجحتی ہیں کہ میوزیم میں ان کے تجربوں سے ان میں اپنے روحانی سفر میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ہمدردی پیدا ہوئی۔

Transcript

نویلا راشد:

میں مسلمان ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ نہيں ہے کہ میں یہودیوں سے دوستی نہيں کرسکتی ہوں۔ کیونکہ ہم سب کو معلوم ہے کہ یہودی مذہب، عیسائیت اور اسلام ابراہیمی مذاہب ہيں۔ میرا مطلب ہے کہ تینوں میں فرق ہے، لیکن میں ان لوگوں میں سے ہوں جو بالواسطہ طور پر تعلقات بنانے کی کوشش کرتے ہيں۔

ایلیسا فش مین:

نویلہ راشد کا کہنا ہے کہ یونائيٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم میں نوجوانوں کے لئے منعقد ایک پروگرام میں شرکت کے بعد وہ بہتر مسلمان ہوگئی ہيں۔ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران نویلہ نے مذہبی امتیاز کا مقابلہ کیا۔ اور اُن کا خیال ہے کہ میوزیم میں ان کے تجربوں سے ان میں اپنے روحانی سفر میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے ہمدردی پیدا ہوئی۔

 

سام دشمنی کے خلاف آوازیں میں خوش آمدید۔ یہ یونائيٹڈ اسٹیٹس ہولوکاسٹ میموریل میوزیم کی جانب سے جاری ہونے والی ایک پوڈکاسٹ سیریز ہے، جو ایلیزبیتھ ایںڈ اولیور اسٹینٹن فاؤنڈیش کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔ میرا نام ایلیسا فش مین ہے۔ ہر مہینے، ہم اپنی دنیا میں سام دشمنی اور نفرت کے اثرات پر غور کرنے کے لئے مہمان مدعو کرتے ہيں۔ واشنگٹن ڈی سی سے، آج ہمارے ساتھ نویلا راشد موجود ہيں۔

نویلا راشد:

میں مسلمان ہوں اور میں سر ڈھانپتی ہوں۔ اور یہ میں نے حال ہی میں کرنا شروع کیا ہے۔ میوزیم نے اپنے ساتھ، اپنے مذہب کے ساتھ اور اپنے ماحول کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں میری مدد کی ہے۔ یہ کہنا غلط نہيں ہوگا کہ میں اپنے آپ کو تلاش کر پائی ہوں کیونکہ میں ایک روحانی سفر سے گزر رہی تھی۔ کیونکہ یہ پرپروگرام شروع کرتے وقت میں نے جو مختلف کام کئے، اُن میں سے ایک یہ تھا کہ ہم نے اُن لمحات کو یاد کیا جب ہمیں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ اور میں نے اسکارف – یعنی کہ حجاب – پہننے کے پہلے کی شروعات کے بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا – اور یہ بتایا کہ پہننے کے بعد میرے ساتھ کیا کیا ہونے لگا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے انہيں بتایا کہ مجھے لوگوں کے سلوک میں بہت فرق نظر آیا۔ جیسے، میں پہلے ڈی سی میں جاتی تھی، تو سیکورٹی گارڈ کیا سلوک کرتے تھے، جبکہ جب میں اپنا سر نہيں ڈھانپتی تھی، اس وقت میں دوسرے سیاحوں میں گھل مل جاتی تھی۔ اور حجاب پہننے کے بعد مجھے سمجھ آنے لگا کہ لوگ ظالم بھی ہوسکتے ہيں لیکن میں اتنی مضبوط ہوں کہ اسے نظر انداز کرکے اپنی زندگی گزارسکتی ہوں۔ مجھے لگا کہ مجھے بہت حوصلے کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی لگا کہ ہر کسی کے لئے سننے اور سمجھنے کے لئے بھی حوصلے کی ضرورت ہے، کیونکہ کئی لوگوں کو سمجھ نہيں آتا ہے کہ مجھ پر کیا گزری ہے، لیکن اس کمرے میں جو لوگ تھے، میرے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے اور میرے دوست، وہ  سمجھ گئے۔

میوزیم کی وجہ سے میں بہتر مسلمان بن سکی، کیونکہ میں نفرت اور جہالت کو پیچھے چھوڑ پائی۔ کیونکہ یہ میوزیم کے بارے میں ایک بنیادی بات ہے۔ اسلام کا بنیادی مطلب امن ہے، لیکن کئی لوگوں کو یہ بات معلوم نہيں ہے۔ کیونکہ میڈیا، دہشت گردگی، خود کش بمبار اور نجانے کیا کیا، آپ کو اسلام کا نام سن کر امن کا احساس نہيں ہوتا ہے۔ اس لئے مجھے احساس ہوا کہ میں بہتر مسلمان بن گئی ہوں، کیونکہ میں جہالت اور بے حسی کو پیچھے چھوڑنے کا مطلب سمجھنے لگی، اور مجھے احساس ہونے لگا کہ میرے مذہب کے بنیادی عقائد بھی یہی ہيں۔ بہت سے لوگ یہ پوچھ رہے ہیں کہ "تمہیں پریشانی ہوتی ہو گی، جیسے تم یہودی مذہب سمجھنے کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کو سیکھنے کی کوشش کس طرح کررہی تھی؟" لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں چیزوں کے آپس کے تعلقات کو سمجھ ہر اپنے اطراف کے ماحول کا مقابلہ کرسکتی ہوں۔

یہ ضروری ہے کہ متنوع قسم کے پس منظر رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں اور ہر چیز کے بارے میں بات کریں، چاہے وہ سیاست ہو، تفریح ہو، کچھ بھی ہو۔ آپ کو احساس ہونے لگتا ہے کہ آپ ایک دوسرے سے مختلف نہيں ہیں۔ اور اگر آپ کو ایک جیسے ہونے کا احساس ہو تو شاید لوگ اپنے اطراف، یا اپنی برادریوں کی دیواریں، یا اپنے گھر والوں کے اطراف کی دیواریں گرا دیں۔ میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے۔